قَسم کےمتعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 27, 2021

قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنے کا طریقہ

جواب :

لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.

(المائدة، 5 : 89)

 اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قَسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو)، اور اپنی قَسموں کی حفاظت کیا کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیتیں خوب واضح فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے احکام کی اطاعت کر کے) شکر گزار بن جاؤ۔

مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے مطابق غلام تو آج کل موجود نہیں ہیں، لہٰذا قسم توڑنے والا دس مسکینوں/ فقیروں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلائے یا ان کو کپڑے پہنائے۔ اگر کھانا یا کپڑے دستیاب نہ ہوں تو تین دن مسلسل روزے رکھے تو کفارہ ادا ہو جائے گا۔

دس مسکینوں / فقیروں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا۔

دس مسکینوں / فقیروں کو کپڑے دینا۔

غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا (مگر آج کے دور میں یہ سہولت موجود نہیں ہے، لہٰذا پہلی تینوں آپشن دستیاب نہ ہونے کی صورت میں چوتھی آپشن پر عمل کیا جائے گا)

تین دن کے مسلسل روزے رکھنا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانا

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدالمرسلین

قسم اور حلف کے متعلق پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ :

اگر قسم اٹھانا ضروری ہوجائے تو قسم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے نام کی اٹھانا چاہیئے ؛

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ :

(مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللَّہِ أَوْ لِیَصْمُتْ ))

أخرجہ البخاري في کتاب الأیمان والنذور، باب: لا تحلفوا بآبائکم، (رقم: 6647)

ترجمہ :جس نے قسم اٹھانی ہو تو وہ اللہ کی اٹھائے وگرنہ خاموش رہے۔ ''

سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو کعبہ کی قسم کھاتے سنا تو فرمایا: اللہ کے علاوہ کسی کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ((سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ۔ ))صحیح سنن الترمذي، رقم: 1535)

" جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر یا شرک کیا۔ "

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کی یعنی مخلوق میں سے کسی مثلا نبی یا ولی یا باپ دادایاکسی انسان کی یا کسی مخلوق کی قسم کھانی جائز نہیں ہے جیساکہ جناب نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے :

لا تحلِفوا بآبائِكم ولا بأمَّهاتِكم ولا بالأندادِ ولا تَحلِفوا إلَّا باللهِ ولا تحلفوا باللهِ إلَّا وأنتُم صادقونَ(صحيح أبي داود:3248)

ترجمہ: اپنے باپوں یا ماؤں کے نام کی قسمیں نہ کھایا کرو اور نہ بتوں کے نام کی ۔ صرف اللہ کے نام کی قسم کھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو ۔

لیکن قرآن کریم کی قسم اٹھانا اس شرکیہ قسم میں سے نہیں ،کیونکہ

قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے ،یعنی اس کی صفت ہے ،اس لئے مخلوق نہیں ،

یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔

( واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ )

 

قسم کھائی کہ ایک ماہ تک اس کے گھر  نہیں جاؤں گا،اب کیا کرے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

صورت مسئولہ میں آپ کے لیے قسم توڑے بغیر اس کے گھر ایک ماہ کے اندر جانے کی کوئی صورت نہیں،  اگر قسم کھانے کے وقت سے ایک مہینہ کے اندر اندر آپ اس شخص  کے گھر میں گئے تو قسم ٹوٹ جائے گی اور اس کا کفارہ آپ پر لازم ہو گا، البتہ اگر ایک ماہ بعد جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر وہ کھانا کھلانا ہے جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہیں، دسوں کو ایک ہی دن کھلایا جائے یا ہر روز ایک ایک کو یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وقت کھلایا جائے یا دس مسکینوں کو کپڑےپہنائے جائیں اور اگر ان تینوں میں سے کسی ایک کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو تین دن پے در پے روزے رکھے جائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مولانانوید چشتی صاحب

 

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن بے پردگی کرتی تھی ، اجنبی مَردوں کے سامنے بال ، گلا ، کلائیاں وغیرہ کھلی رہتی تھیں ، اس نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اللہ کی رضا کیلئے شرعی پردہ کروں گی۔ اس کا وہ کام بھی ہوچکا ہے ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ منت شرعی منت ہے یا نہیں؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عورت کا بال ، کلائیاں ، پنڈلیاں ، گلا وغیرہ اجنبی مَردوں سے چھپانا لازم ہے۔ ان اعضاء کی بے پردگی کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ شرعی منت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس چیز کی منت مانی جائے وہ پہلے سے ہی شریعت کی طرف سے لازم نہ ہو۔ یہاں چونکہ عورت پرپردہ کرنا پہلے سے ہی شریعت کی طرف سے لازم ہے ، اس لئے یہ منت شرعی منت نہیں کہلائے گی ، مگر پردے کی پابندی عورت پر بدستور لازم رہے گی۔

    پردے کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے :  (وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى ( ترجمۂ کنزُالایمان : اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہوجیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔ (پ22 ، الاحزاب : 33) 

    اس آیت کی تفسیرمیں مفسرِقرآن ، صدرُ الافاضل ، حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : “ اگلی جاہلیت سے مراد قبلِ اسلام کا زمانہ ہے ، اس زمانہ میں عورتیں اتراتی نکلتی تھیں ، اپنی زینت ومحاسن کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں ، لباس ایسے پہنتی تھیں ، جن سے جسم کے اعضاء اچھی طرح نہ ڈھکیں۔ “ (خزائن العرفان ، ص780)

    بہارِ شریعت میں ہے : “ آزاد عورتوں اور خنثی مشکل کیلئے سارا بدن عورت ہے ، سوا منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے ، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں ، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔ “ (بہارشریعت ، 1 / 481)

منت کی شرائط بیان کرتے ہوئے مراقی الفلاح میں فرمایا : “ والثالث ان یکون لیس واجبا قبل نذرہ بایجاب اللہ تعالیٰ ، کالصلوات الخمس والوتر۔ “ ترجمہ : تیسری شرط یہ ہے کہ منت سے پہلے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم نہ ہو ، جیسے پانچوں نمازیں اور وتر۔ (مراقی الفلاح متن الطحطاوی ، ص692)

    بہارشریعت میں ہے : “ شرعی منّت جس کے ماننے سے شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے ، اس کے لیے مطلقاً چند شرطیں ہیں۔

(1)ایسی چیز کی منّت ہو کہ اس کی جنس سے کوئی واجب ہو ، عیادتِ مریض اور مسجد میں جانے اور جنازہ کے ساتھ جانے کی منت نہیں ہو سکتی۔

(2)وہ عبادت خود بالذات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لیے وسیلہ نہ ہو ، لہٰذا وضو و غسل و نظرِ مصحف کی منّت صحیح نہیں۔

(3)اس چیز کی منّت نہ ہو جو شرع نے خو د اس پر واجب کی ہو ، خواہ فی الحال یا آئندہ مثلاً آج کی ظہر یا کسی فرض نماز کی منّت صحیح نہیں کہ یہ چیزیں تو خود ہی واجب ہیں۔

(4)جس چیز کی منّت مانی وہ خود بذاتہٖ کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور اگر کسی اور وجہ سے گناہ ہو تو منّت صحیح ہو جائے گی ، مثلاً عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے ، اگر اس کی منّت مانی تومنّت ہو جائے گی اگرچہ حکم یہ ہے کہ اُس دن نہ رکھے ، بلکہ کسی دوسرے دن رکھے کہ یہ ممانعت عارضی ہے یعنی عید کے دن ہونے کیوجہ سے ، خود روزہ ایک جائز چیز ہے۔

(5)ایسی چیز کی منت نہ ہو جس کا ہونا محال ہو ، مثلاً یہ منت مانی کہ کل گزشتہ میں روزہ رکھوں گا یہ منت صحیح نہیں۔ “ (بہارشریعت ، 1 / 1015)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ابومحمد محمد فراز عطّاری

 

 

منت کی دو  صورتیں

یاد رہے ،منت کی ایک صورت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے اسے کسی شرط کے ساتھ اپنے اوپر واجب کرلے۔اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ایسے کام کی شرط لگائی جس کے ہو جانے کی خواہش ہے مثلاً یوں کہا کہ اگر میرا مریض اچھا ہو گیایا میرا مسافر خَیْرِیَّت سے واپس آگیا تو میں راہِ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعت نماز پڑھوں گا یا اتنے روزے رکھوں گا،تو اس صورت میں جب وہ کام ہو گیا تو اتنی مقدار صدقہ کرنا اور اتنی رکعت نماز پڑھنا اور اتنے روزے رکھنا ضروری ہے ، اس میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ کام نہ کرے اور مَنت کا کَفّارہ دیدے، اور اگر منت میں ایسے کام کی شرط لگائی ہے کہ جس کا ہونا نہیں چاہتا مثلاً یوں کہا کہ اگر میں تم سے بات کروں یا تمہارے گھر آؤں تو مجھ پر اتنے روزے ہیں،اس صورت میں اگر شرط پائی گئی یعنی اس سے بات کر لی یا اس کے گھر چلاگیا تو اب اسے اختیار ہے کہ جتنے روزے کہے تھے وہ رکھ لے یا کَفّارہ دیدے۔

منت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شرط کا ذکر کئے بغیر اپنے اوپر وہ چیز واجب کر لے جو واجب نہیں ہے مثلاً یوں کہے کہ میں نے اتنے روزوں کی منت مانی یا اس طرح کہے میں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنے روزے رکھوں گا۔اس کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی وہ کرنا ضرور ی ہے اس کے بدلے کفارہ نہیں دے سکتا۔( بہار شریعت، حصہ نہم، منت کا بیان، ۲ / ۳۱۴-۳۱۵، ملخصاً)